About

slider

Recent

بلاگ آرکائیو

Navigation

صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے

سلطان نے اپنے وزیروں سے کہا کہ یہ قالین کاٹ کر مرمت کرایا گیا ہے ۔ وزیروں نے قسمیں کھائیں کہ عالیجاہ ایسا نہیں ہوا۔ اس پر سلطان نے کہا

کچھ لوگ بہت لمبی عمر پاتے ہیں مگر کچھ نہیں کرپاتے اور کچھ نفسیات ایسی ہوتی ہے جو بہت کم عمر پاتی ہے مگر صدیوں کا کام کرجاتی ہے ان میں سے ارفع کریم کا نام بھی قابل ذکر ہے ،ارفع کریم 2 فروری1995 کو فیصل آباد کے ایک گاﺅں رام دیوالی چک نمبر4ءمیں پیدا ہوئی اور 14 جنوری 2012 کو لاہو رمیں جہاں فانی سے رخصت ہونے والی نے اگرچہ زندگی کی سولہ بہاریں ہی دیکھیں مگراس پھول کا تاابد یاد رکھا جائے گاارفع کو دنیا کا کم ترین عمر مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور نجانے کتنے خواب تھے جن کی تعبیر اس نے پانی تھی اور کتنی تصویروں میں حسین و دلکش

رنگ بھرنے تھے،جنوری کی ایک انتہائی سرد آلود صبح کو لاہور کے کمبائینڈ ملٹری ہسپتال میں وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے جب 22 دن بے ہوش رہنے کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا

یوں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے آئی ٹی ماہرین کو بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں لاہور کے کیولری گراﺅنڈ میں اسکی نماز جنازہ میں سیاسی و سماجی اور مذہبی نامور شخصیات نے شرکت کی اس موقع پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے لاہور کے ٹیکنالوجی پارک کو ارفع کریم کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ارفع کریم کے خوابوں کو بکھرنے نہیں دیں گے ان کی تعبیر میں مدد کریں گے،ارفع کریم نے اپنی مختصر زندگی میں اتنی منزلیں طے کرلی تھیں کہ لگتا تھا کہ اسکے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ اسکے والد لیفٹننٹ کرنل(ر) احمد کریم اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمت سرانجام دیتے رہے اور بیٹی کی پڑھائی کی خاطر انہوں نے خاموشی سے ریٹائیرمنٹ لے لی ۔

ارفع نے تین سال کی عمر میں سکول جانا شروع کردیااللہ تعالیٰ نے اس پر خصوصی کرم کیا تھا اس کر لڑکپن بڑا شاندار تھا وہ نعت گوئی کے مقابلوں بحث مباحثوں شعرو شاعری اورکھیل کود میں اپنی ہم جولیوں سے کہیں آگے تھی پھر2004 میں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی خبروں کا موضوع بن گئی جب اُ س نے مائیکروسوفٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے دنیا کی سب سے کم عمر مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کیا،اس کامیابی پر مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس نے اسے امریکہ مدعو کیا اورمائیکروسوفٹ کے ہیڈ آفس کا دورہ کروایا ،بل گیٹس نے اس سے دس منٹ ملاقات کی جو مغربی میڈیا میں حیرت انگیز تھی واپسی پر اسے صدارتی تمغے سے نوازا گیا یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ پاکستان کی کم عمر ترین لڑکی تھی اس بین الاقوامی اعزاز سے قبل وہ سکول میں بھی کئی ایوارڈز حاصل کرچکی تھی اپنی سادہ پر خلوص نیت کے باعث اپنی ہم جولیوں میں وہ بڑی مقبول تھی وہ اپنے چھوٹے بھائیوں سرور کریم،داﺅد کریم سے بہت بے تکلف تھی۔

فیصل آباد کے ایک پسماندہ گاﺅں کی یہ ہونہار لڑکی بہت کامیابیاں سمیٹ رہی تھی

فیصل آباد کے ایک پسماندہ گاﺅں کی یہ ہونہار لڑکی بہت کامیابیاں سمیٹ رہی تھی لوگ حیران تھے اور والدین دعا گو کہ خدایا اسے نظر بد سے بچانا وہ اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے میں دن رات کوشاں تھی کہ 22 دسمبر2011 کو ایک شب اچانک اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ اسے چکر آرہے ہیں والدہ نے سمجھا کہ زیادہ دیر تک کمپیوٹر پر بیٹھنے یا پڑھنے کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے انہوں نے تھوری دیر آرام کرنے کا کہاجس سے اُسکی طبیعت سنبھل گئی لیکن تھوڑی دیر بعد یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور صبح تک حالت بہترنہ ہوئی اسے فوج کے ہسپتال سی ایم ایچ میں داخل کروایا گیا اِسی دوران ارفع کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ بے ہوش ہوگئی اور پھر کومہ میں چلی گئی بل گیٹس کو خبر ہوئی تو انہوں نے دنیا کے بہترین ہسپتال میں مفت علاج کرانے کی پیشکش کی لیکن نازک حالات کے پیش نظر اسے اسے دوسری جگہ منتقل کرنا ناآسان نہ تھا ۔

اس عرصہ کے دوران پوری پاکستان قوم اور بیرون ملک لاکھوں لوگ اس کے لیے دعا گو تھے

اس عرصہ کے دوران پوری پاکستان قوم اور بیرون ملک لاکھوں لوگ اس کے لیے دعا گو تھے لیکن آئی ٹی کی فاتح موت سے شکست کھاگئی اور 14جنوری2012 کو روشن ستارہ ٹوٹ کر بکھر گیا اسکی موت پر عالمی سیاسی مذہبی اور سماجی رہنماﺅں نے دکھ کا اظہار کیا پاکستان اور دنیا کے عام شہریوں نے بھی اس کا در دمحسوس کیا ارفع کے والدین کو بھی احساس تھا کہ پوری قوم ان کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہے ارفع کریم اب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ لاہور کے عظیم الشان آئی ٹی پارک اب ارفع کریم پارک اور پاکستان کے دوسرے آئی ٹی سینٹر جو ان کے نام سے منسوب ہیں کی صورت میں ملک کے ہزاروں طلباو طالبات کے روشن مستقبل کے لیے مہمیز ثابت ہوگی وہ اپنے کارہائے نمایاں اور حوصلہ بخش مسکراہٹوں کے ساتھ ہمیشہ اپنی یاددلاتی رہے گی اورہمارے دلوں میں رہے گی اسکے جو خواب ادھورے رہ گئے جو تصویریں مکمل نہیں ہو سکیں ان کی تعبیر اور ان میں رنگ بھرنا اب پاکستانی جوانوں کی ذمہ داری ہے اور ہمیں یہ فرض نبھانا ہے۔

تحر یر:ساجد کمبوہ اردو پو ا ینٹ

اشرفیوں کی تھیلی

محمود غزنوی کے زمانے میں غزنی کے ایک قاضی کے پاس اس کے ایک دوست تاجر نے اشرفیوں کی ایک تھیلی بطور امانت رکھوائی اور خود کاروبار کیلئے دوسرے ملک چلا گیا ۔ واپسی پر اس نے قاضی سے اپنی تھیلی واپس مانگی جو اس نے واپس کردی ۔

تاجر تسلی کرکے تھیلی لے گیا۔ گھر جا کر اس نے تھیلی کھولی تو اشرفیوں کی بجائے اس میں تانبے کے سکے تھے۔ اس نے قاضی کے پاس آکر کہا اس میں جواشرفیاں تھیں وہ کہاں گئیں ؟ قاضی نے جواب دیا ” بھئی جس طرح تم بند تھیلی دے گئے تھے میں نے اسی طرح تمہارے حوالے کردی ۔

اب مجھے کیا معلوم کہ اس میں اشرفیاں تھیں یاتانبے کے سکے ۔ “ تاجر فریاد لے کرسلطان محمود غزنوی کے پاس گیا اور سارا واقعہ سلطان کو سنادیا ۔ سلطان سمجھ گیا کہ تاجر سچ کہتا ہے لین اس کاکوئی جواب نہ تھا کہ بند تھیلی میں اشرفیوں کے بجائے تانبے کے سکے کیسے چلے گئے ؟ سلطان نے کہا کہ تم یہ تھیلی میرے پاس رہنے دواور انصاف کرنے کا کوئی طریقہ سوچنے کیلئے مجھے کچھ دن کا وقت دو۔ تاجر نے وہ تھیلی سلطان کے حوالے کی اور خود چلاگیا ۔ سلطان نے کچھ دیر اور پھر اپنے خنجر سے اُس قالین کوایک طرف سے کاٹ دیا جو تخت پر بچھا ہوا تھا اور اس کے فوراََ بعد حکم دیا کہ ہم شکار کوجائیں گے ۔ چنانچہ سلطان پر روانہ ہوگیا ۔

بادشاہ کی روانگی کے بعد جب وزیر وغیرہ واپس لوٹے

بادشاہ کی روانگی کے بعد جب وزیر وغیرہ واپس لوٹے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تخت شاہی کاقالین ایک طرف سے کٹا ہواہے ۔ سب سوچنے لگے کہ اب کیاکیا جائے ۔ شکار سے واپسی پر تین دن کے بعد جب سلطان کو یہ پتہ چلے گا کہ قالین کٹ گیا ہے تو خداجانے کس کس کی شامت آئے ۔ وہ یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ ان میں سے ایک بول اٹھا۔ ارے یار ! کیوں فکر کرتے ہو، احمد فوگرکو بلالووہ اس کو ایسا بنادے گا کہ بادشاہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو گی کہ کبھی قالین کٹاتھا ۔ چنانچہ احمد رفوگرکوبلا کر اس سے کہا گیا کہ جس قدر جلد ہوسکے قالین کی اس طرح مرمت کردو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ اسے رفو کیاگیا ہے ۔

احمد رفوگر نے یہ کام دودن میں مکمل کردیا۔ تیسرے دن سلطان شکار سے واپس آیا تو اس نے قالین کی صحیح سالامت پایا۔

احمد رفوگر نے یہ کام دودن میں مکمل کردیا۔ تیسرے دن سلطان شکار سے واپس آیا تو اس نے قالین کی صحیح سالامت پایا۔ بادشاہ خود یہ نہ جان سکا کہ اسے کہاں سے رفو کیاگیا ہے ۔ سلطان نے اپنے وزیروں سے کہا کہ یہ قالین کاٹ کر مرمت کرایا گیا ہے ۔ وزیروں نے قسمیں کھائیں کہ عالیجاہ ایسا نہیں ہوا۔ اس پر سلطان نے کہا کہ میں نے خود اس قالین کو کاٹا تھا ۔ بتایا جائے کہ کس نے اسے رفو کیاہے ؟ بادشاہ کو بتایا گیا کہ یہ کام احمد رفو گر نے کیا ہے ۔ سلطان نے احمد کو بلایا اور وہ تھیلی دکھا کر کہا ۔ دیکھو ! کہیں یہ تھیلی تو تمہارے پاس رفو کیلئے نہیں آئی تھی ؟ پہلے تو احمد نے انکار کیا مگر جب سلطان نے سختی سے پوچھا تو اس نے کہا “ جی ہاں ! یہ تھیلی فلاں قاضی صاحب میرے پاس لائے تھے جس میں نے رفو کردیا تھا۔ بادشاہ نے اسی وقت قاضی کو بلایااور کہا کہ تاجر کی اشرفیاں فوراََ واپس کردو ورنہ تمہیں سخت سزادی جائے گی، آخر قاضی نے وہ اشرفیاں لاکر بادشاہ کے سامنے پیش کردیں جو بادشاہ نے تاجر کے حوالے کردیں۔ قاضی کے خلاف مقدمہ چلایا اور اسے سزادلائی ۔

Share
Banner

Muhammad Raza

Post A Comment:

0 comments: